तुम सब Wrong हो / Tum sab Wrong ho
Tum sab Wrong ho
Tum sab Wrong ho Wrong nazar hai, Wrong tadap hai.
Tum yadi deh mein ho to dekhte hi Wrong ho. Ab Right mein aa jao ki main kya hoon to sab kuch badal jaayega.
Man hai kuch bhi nahi, par dikhta hai aise hi dikhayi deta hai ki main kuch hoon? Posh karta hai, maano main kuch hoon, par hastee nahi hai.
Tumhari atma mahar daya hai. Bhagwan, Guru, atma aur daya ek hi baat hai.
Daya hai hi andar tumhari atma mein. Baahar kahin se daya nahi hogi.
Tumne apni atma ko pehchana to andar se hi tumhe aashirwad mil jaati hai. Baahar se koi aashirwad nahi karega.
Samajh ahankar ko maar kar khatam kar deti hai.
“Main beemar hoon”, yeh kaha to tum doshi hue. Apne se bhi sacche bano, insaaf karo doosron ke saath bhi.
Apni beemari se sulah karo. Jo beemari kal hogi hi nahi, woh aaj kyon maane? Yeh sab nahi hui.
Sach paane ke liye naam roop ki pooja chhodni chahiye.
Pehle Krishna aur Nanak ko Bhagwan samajhte the, ab Guru ko samajhte ho ki mera flana Bhagwan hai. Yeh koi satya nahi hai. Naam roop naash hai.
Tum hi ek niraakar se sakaar hokar aaye ho. Yeh samajh ardhattamat hi sach hai.
Atma ko jaanne se koshishen aur andar-bahar ki kheechataani khatam ho jaati hai.
Dhan ke liye prem sab kharaabiyon ki jad hai. Aaj bhi lakh rupaye mile to tumhe khushi hogi ya nahi?
Bhagwan accha nahi hai, par acchai khud Bhagwan hai.
Accha karo nahi, par acchai ka anand lo. Na duniya se bhago, na duniya ke peeche pado.
Aise pavitra bano jaisa tumhara pita hai swarg mein, pita jaise bano nahi to moot ke moot ho.
Kalpana mal ho to mal mootri hi ho.
तुम सब Wrong हो
तुम सब Wrong हो Wrong नज़र है, Wrong तड़प है।
तुम यदि देह में हो तो देखते ही Wrong हो। अब Right में आ जाओ कि मैं क्या हूँ तो सब कुछ बदल जाएगा।
मन है कुछ भी नहीं, पर दिखता है ऐसे ही दिखायी देता है कि मैं कुछ हूँ? पोज करता है, मानो मैं कुछ हूँ, पर हस्ती नहीं है।
तुम्हारी आत्मा महर दया है। भगवान, गुरू, आत्मा और दया एक ही बात है।
दया है ही अंदर तुम्हारी आत्मा में। बाहर कहीं से दया नहीं होगी।
तुमने अपनी आत्मा को पहचाना तो अंदर से ही तुम्हें आशीर्वाद मिल जाती है। बाहर से कोई आशीर्वाद नहीं करेगा।
समझ अहंकार को मारकर खत्म कर देती है।
“मैं बीमार हूँ”, यह कहा तो तुम दोषी हुए। अपने से भी सच्चे बनो, इंसाफ करो दूसरों के साथ भी।
अपनी बीमारी से सुलह करो। जो बीमारी कल होगी ही नहीं, वह आज क्यों माने? यह सब नहीं हुई।
सच पाने के लिए नाम रूप की पूजा छोड़नी चाहिए।
पहले कृष्ण और नानक को भगवान समझते थे, अब गुरू को समझते हो कि मेरा फलाना भगवान है। यह कोई सत्य नहीं है। नाम रूप नाश है।
तुम ही एक निराकार से साकार होकर आए हो। यह समझ आधे-अधूरे सत्य से अधिक है।
आत्मा को जानने से कोशिशें और अंदर-बाहर की खींचातानी खत्म हो जाती है।
धन के लिए प्रेम सब खराबियों की जड़ है। आज भी लाख रुपए मिले तो तुम्हें खुशी होगी या नहीं?
भगवान अच्छा नहीं है, पर अच्छाई खुद भगवान है।
अच्छा करो नहीं, पर अच्छाई का आनंद लो। न दुनिया से भागो, न दुनिया के पीछे पड़ो।
ऐसे पवित्र बनो जैसा तुम्हारा पिता है स्वर्ग में, पिता जैसे बनो नहीं तो मूठ के मूठ हो।
कल्पना मल हो तो मल मूत्र ही हो।
تم سب غلط ہو
تم سب غلط ہو غلط نظر ہے، غلط تڑپ ہے۔
تم اگر جسم میں ہو تو دیکھتے ہی غلط ہو۔ اب صحیح میں آ جاؤ کہ میں کیا ہوں تو سب کچھ بدل جائے گا۔
من ہے کچھ بھی نہیں، پر دکھتا ہے ایسے ہی دکھائی دیتا ہے کہ میں کچھ ہوں؟ پوز کرتا ہے، مانوں میں کچھ ہوں، پر ہستی نہیں ہے۔
تمہاری آتما مہر دَیا ہے۔ خدا، گرو، آتما اور دَیا ایک ہی بات ہے۔
دَیا ہے ہی اندر تمہاری آتما میں۔ باہر کہیں سے دَیا نہیں ہوگی۔
تم نے اپنی آتما کو پہچانا تو اندر سے ہی تمہیں آشیرواد مل جاتی ہے۔ باہر سے کوئی آشیرواد نہیں کرے گا۔
سمجھ اہنکار کو مار کر ختم کر دیتی ہے۔
“میں بیمار ہوں”، یہ کہا تو تم ذمہ دار ہوئے۔ اپنے سے بھی سچے بنو، انصاف کرو دوسروں کے ساتھ بھی۔
اپنی بیماری سے صلح کرو۔ جو بیماری کل ہوگی ہی نہیں، وہ آج کیوں مانے؟ یہ سب نہیں ہوئی۔
سچ پانے کے لئے نام روپ کی پوجا چھوڑنی چاہیے۔
پہلے کرشن اور نانک کو خدا سمجھتے تھے، اب گرو کو سمجھتے ہو کہ میرا فلانہ خدا ہے۔ یہ کوئی سچائی نہیں ہے۔ نام روپ نیست ہے۔
تم ہی ایک نِرَاکار سے ساکار ہو کر آئے ہو۔ یہ سمجھ آدھ ماترا ہی سچ ہے۔
آتما کو جاننے سے کوششیں اور اندر باہر کی کھچاتانی ختم ہو جاتی ہے۔
دھن کے لئے محبت سب خرابیوں کی جڑ ہے۔ آج بھی لاکھ روپے ملے تو تمہیں خوشی ہوگی یا نہیں؟
خدا اچھا نہیں ہے، پر اچھائی خود خدا ہے۔
اچھا کرو نہیں، پر اچھائی کا لطف لو۔ نہ دنیا سے بھاگو، نہ دنیا کے پیچھے پڑو۔
ایسے پُکتر بنو جیسا تمہارا والد ہے سوگ میں، والد جیسے بنو نہیں تو مٹ کے مٹ ہو۔
تصور مَل ہو تو مَل پیشاب ہی ہو۔
تم سب غلط ہو
تم سب غلط ہو غلط نظر ہے، غلط تڑپ ہے۔
تم اگر جسم میں ہو تو دیکھتے ہی غلط ہو۔ اب صحیح میں آ جاؤ کہ میں کیا ہوں تو سب کچھ بدل جائے گا۔
من ہے کچھ بھی نہیں، پر دکھتا ہے ایسے ہی دکھائی دیتا ہے کہ میں کچھ ہوں؟ پوز کرتا ہے، مانوں میں کچھ ہوں، پر ہستی نہیں ہے۔
تمہاری آتما مہر دَیا ہے۔ خدا، گرو، آتما اور دَیا ایک ہی بات ہے۔
دَیا ہے ہی اندر تمہاری آتما میں۔ باہر کہیں سے دَیا نہیں ہوگی۔
تم نے اپنی آتما کو پہچانا تو اندر سے ہی تمہیں آشیرواد مل جاتی ہے۔ باہر سے کوئی آشیرواد نہیں کرے گا۔
سمجھ اہنکار کو مار کر ختم کر دیتی ہے۔
“میں بیمار ہوں”، یہ کہا تو تم ذمہ دار ہوئے۔ اپنے سے بھی سچے بنو، انصاف کرو دوسروں کے ساتھ بھی۔
اپنی بیماری سے صلح کرو۔ جو بیماری کل ہوگی ہی نہیں، وہ آج کیوں مانے؟ یہ سب نہیں ہوئی۔
سچ پانے کے لئے نام روپ کی پوجا چھوڑنی چاہیے۔
پہلے کرشن اور نانک کو خدا سمجھتے تھے، اب گرو کو سمجھتے ہو کہ میرا فلانہ خدا ہے۔ یہ کوئی سچائی نہیں ہے۔ نام روپ نیست ہے۔
تم ہی ایک نِرَاکار سے ساکار ہو کر آئے ہو۔ یہ سمجھ آدھ ماترا ہی سچ ہے۔
آتما کو جاننے سے کوششیں اور اندر باہر کی کھچاتانی ختم ہو جاتی ہے۔
دھن کے لئے محبت سب خرابیوں کی جڑ ہے۔ آج بھی لاکھ روپے ملے تو تمہیں خوشی ہوگی یا نہیں؟
خدا اچھا نہیں ہے، پر اچھائی خود خدا ہے۔
اچھا کرو نہیں، پر اچھائی کا لطف لو۔ نہ دنیا سے بھاگو، نہ دنیا کے پیچھے پڑو۔
ایسے پُکتر بنو جیسا تمہارا والد ہے سوگ میں، والد جیسے بنو نہیں تو مٹ کے مٹ ہو۔
تصور مَل ہو تو مَل پیشاب ہی ہو۔